استاد نے کلاس کے ہر بچے کو ایک لذیز ٹافی دی اور پھر عجیب ہدایت دی: ’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کلاس روم سے باہر چلے گئے۔ کلاس میں خاموشی چھاگئی، ہر بچہ اپنی ٹافی کو بے تابی سے دیکھ رہا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور دس منٹ پورے ہوئے۔ استاد واپس آئے اور کلاس کا جائزہ لیا۔ سات بچے ایسے تھے جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جبکہ باقی سب بچے ٹافی کھا چکے تھے۔ استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اور پڑھانا شروع کیا۔ اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا۔ کچھ سالوں بعد پروفیسر والٹر نے دوبارہ ان بچوں کے بارے میں تحقیق کی۔ انہیں معلوم ہوا کہ وہ سات بچے زندگی میں کامیابیاں حاصل کر چکے تھے، جبکہ باقی طلبہ عام زندگی گزار رہے تھے اور کچھ سخت معاشی اور معاشرتی حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ پروفیسر والٹر نے اس تحقیق کا نتیجہ ایک جملے میں نکالا: ’’جو انسان دس منٹ تک صبر نہیں کر سکتا، وہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘ اس تحقیق کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑ گیا، کیونکہ بچوں کو دی گئی ٹافی کا نام ’’مارش میلو‘‘ تھا۔ اس تھیوری کے مطابق، دنیا کے کامیاب ترین افراد میں ایک خوبی ’’صبر‘‘ بھی پائی جاتی ہے، جو انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے۔ اس کی بدولت انسان سخت حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا اور ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتا ہے۔ تاہم ذہن میں رہے کہ یہ مجبوری والا صبر نہیں، مرضی والا صبر ہے. یہی قوتِ برداشت انہیں کامیابی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ملا نصیر الدین کا مشوره

ملا نصیر الدین کا مشوره

ایک دن امیر تیمور لنگ در بار لگائے ہوا تھا۔ درباری مؤدبانہ طریق سے اپنی جگہوں پر کھڑے ہوئے تھے۔ تیمور نے خلفائے بغداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ” ان کے القاب بڑے پر شکوہ ہوتے ہیں۔ مثلاً مستقر بالله، واثق بالله، معتصم باللہ اور متوکل باللہ وغیرہ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اس قسم کا کوئی لقب اختیار کروں ۔ درباریوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مختلف القابات تجویز کئے ..... جب ملا نصیر الدین کی باری آئی تو اس نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا: ” ناچیز کے خیال میں حضور کا لقب نعوذ باللہ بہت موزوں رہے گا۔“ ( بحوالہ ماہنامہ ”ہما“ نئی دہلی : جنوری ۱۹۹۵ء ص ۷۷ )